ٹوٹتے رہنے کے آزار میں آ جاتے ہیں
کتنے بھولے ہیں ترے پیار میں آ جاتے ہیں
ماضی و حال کے سب زخم بھلاتے ہوئے ہم
دیکھ لیں تجھ کو تو سنسار میں آ جاتے ہیں
سوچتے رہنے سے جنت نہیں ملنے والی
ہم ترے حلقہ آثار میں آ جاتے ہیں
اپنے ہی دھیان میں ڈوبے ہوئے منزل کی طرف
کیوں سمند ر میری رفتار میں آ جاتے ہیں
ہم ہوائوں کی طرح خانہ بجاں پھرتے ہیں
کسی در میں کسی دیوار میں آ جاتے ہیں
یہ ستم کم تو نہیں خواب فروشوں کے لیے
لے کے تعبیر کو دربار میں آ جاتے ہیں